سورة اَلمْؤمِنْ

 القرآن الکریم کا صفحہ - 1314
سورہ مومن مکی ہے اس میں پچاسی آیتیں اورنو رکوع ہیں
 سورة اَلمْؤمِنْ

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ

حٰم (1)


 تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّـهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿٢

اس کتاب کا نازل فرمانا [۳] اس اللہ کی طرف سے ہے جو غالب اور دانا ہے [۴](2)

تفسیر

اس سورت کو سورہ غافر اور سورہ، الطول بھی کہتے ہیں
3 - تَنْزِیْل مُنَزَّل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ کی طرف سے نازل شدہ ہے جس میں جھوٹ نہیں
4 - جو غالب ہے، اس کی قوت اور غلبے کے سامنے کوئی پر نہیں مار سکتا۔ علیم ہے، اس سے کوئی ذرہ تک پوشیدہ نہیں 

  القرآن الکریم کا صفحہ - 1315

چاہے وہ کتنے بھی کثیف پردوں میں چھپا ہو۔

غَافِرِ‌ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ 

إِلَيْهِ الْمَصِيرُ‌ ﴿٣


گناه کا بخشنے واﻻ اور توبہ کا قبول فرمانے واﻻ[ ۱] سخت عذاب واﻻ [ ۲]انعام و قدرت واﻻ، [۳ ]جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف واپس لوٹنا ہے (3)

تفسیر


۱ - گزشتہ گناہ معاف کرنے والا اور مستقبل میں ہونے والی کوتاہیوں پر توبہ قبول کرنے والا ہے یا اپنے دوستوں کے لئے غافر ہے اور کافر اور مشرک اگر توبہ کریں تو ان کی توبہ قبول کرنے والا ہے۔

۲ - ان کے لیے جو آخرت پر دنیا کو ترجیح دیں اور تمرد و طغیان کا راستہ اختیار کریں یہ اللہ کے اس قول کی طرح ہی ہے نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم (الحجر49 ۔ 50 ) میرے بندوں کو بتلا دو کہ میں غفور و رحیم ہوں اور میرا عذاب بھی نہایت دردناک ہے قرآن کریم میں اکثر جگہ یہ دونوں وصف ساتھ ساتھ بیان کیے گئے ہیں تاکہ انسان خوف اور رجا کے درمیان رہے کیونکہ محض خوف ہی خوف انسان کو رحمت و مغفرت الہی سے مایوس کر سکتا ہے اور نری امید گناہوں پر دلیر کر دیتی ہے۔


۳ - طول کے معنی فراخی اور تونگری کے ہیں یعنی وہی فراخی اور تونگری عطا کرنے والا ہے بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں انعام اور تفضل یعنی اپنے بندوں پر انعام اور فضل کرنے والا ہے۔


مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّـهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُ‌وا فَلَا يَغْرُ‌رْ‌كَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ ﴿٤


    اللہ تعالیٰ کی آیتوں میں وہی لوگ جھگڑتے ہیں جو کافر ہیں [ 4]پس ان لوگوں کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے[5] (4)


تفسیر


4 - اس جھگڑے سے مراد ناجائز اور باطل جھگڑا ہے جس کا مقصد حق کی تکذیب اور اس کی تردید و تغلیظ ہے ورنہ جس جدال بحث ومناظرہ کا مقصد ایضاح حق، ابطال باطل اور منکرین و معترضین کے شبہات کا ازالہ ہو وہ مذموم نہیں نہایت محمود و مستحسن ہے بلکہ اہل علم کو تو اس کی تاکید کی گئی ہے لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ (آل عمران18) تم اسے لوگوں کے سامنے ضرور بیان کرنا اسے چھپانا نہیں بلکہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کے دلائل وبراہین کو چھپانا اتنا سخت جرم ہے کہ اس پر کائنات کی ہرچیز لعنت کرتی ہے البقرہ159

5 - یعنی یہ کافر اور مشرک جو تجارت کرتے ہیں اس کے لئے مختلف شہروں میں آتے جاتے ہیں اور کثیر منافع حاصل کرتے ہیں، یہ اپنے کفر کی وجہ سے جلد ہی مؤاخذہ الٰہی میں آ جائیں گے، یہ مہلت ضرور دیئے جا رہے ہیں لیکن انہیں چھوڑا نہیں جائے گا

 
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِن بَعْدِهِمْ ۖ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَ‌سُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ وَجَادَلُوا 

 القرآن الکریم کا صفحہ - 1314

بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ ﴿٥

قوم نوح نے اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی جھٹلایا تھا۔ اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کر لینے کا اراده کیا [ ۱] اور باطل کے ذریعہ کج بحثیاں کیں، تاکہ ان سے حق کو بگاڑ دیں [ ۲] پس میں نے ان کو پکڑ لیا، سو میری طرف سے کیسی سزا ہوئی [ ۳] (5)


تفسیر

۱ - تاکہ اسے قید یا قتل کر دیں یا سزا دیں۔

۲ - یعنی اپنے رسولوں سے انہوں نے جھگڑا کیا، جس سے مقصود حق بات میں کیڑے نکالنا اور اسے کمزور کرنا تھا۔

۳ -
چنانچہ میں نے ان حامیان باطل کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لیا، پس تم دیکھ لو ان کے حق میں میرا عذاب کس طرح آیا اور کیسے انہیں حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا یا انہیں نشان عبرت بنا دیا۔



 وَكَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَ‌بِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُ‌وا أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ‌ ﴿٦

اور اسی طرح آپ کے رب کا حکم کافروں پر ﺛابت ہو گیا کہ وه دوزخی ہیں [4] (6)


تفسیر

4 - مقصد اس سے اس بات کا اظہار ہے کہ جس طرح پچھلی امتوں پر تیرے رب کا عذاب ثابت ہوا اور وہ تباہ کر دی گئیں اگر یہ اہل مکہ بھی تیری تکذیب اور مخالفت سے باز نہ آئے اور جدل بالباطل کو ترک نہ کیا تو یہ بھی اسی طرح عذاب الہی کی گرفت میں آ جائیں گے پھر کوئی انہیں بچانے والا نہیں ہوگا۔


الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْ‌شَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَ‌بِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُ‌ونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَ‌بَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّ‌حْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ‌ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ﴿٧

 
عرش کے اٹھانے والے اور اسکے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے [5 ](7)

 

 

No comments:

Post a Comment

mukamal Quran tafseer parhe Asanul biyan or full hadees urdu me

https://shamilaurdu.com/